پھل زندگی کے لئے .......

پھل اس زمین پر اللہ تعالی کا تحفہ ہیں۔۔۔کیسے سرسبز ٹہنیوں پر رنگ برنگے پھول لگتے ہیں اور دیکھتے ہی، پھولوں کی پتیاں جھڑ کر پھلوں کا روپ دھار لیتی ہیں۔۔کسیے کیسے خوشنما پھل کہ مصور کی آنکھ حیراں کہ ان رنگوں سے کوئی رنگ بھی اس کی دکان میں نہیں۔
ساینس یہ ثابت کرچکی ہے کہ پھلوں میں ایسے اجزا پائے جاتے ہیں، جن کی ہمارے جسم کی تندرستی کے لئے ضرورت رہتی ہے۔۔۔۔

میں نے آج سے پچیس برس پہلے کے پاکستان میں وہ وقت دیکھ رکھا جب گاوں میں کسی ایک یا دو بیریوں کے بیر بہت مشہور ہوتے تھے۔۔۔پھر ہم بچے اس پر شب خون مارنے کا پروگرام بنایا کرتے تھے۔۔۔مالک کی رضامندی کے بغیر چوری چھپے کسی ایک آدھ ساتھی کو بیری پر چڑھا دیا جاتا اور اور پھر ایک ہلونا لگتا اور زمین کچے پکے بیروں سے رنگ برنگی ہو جاتی ۔۔۔۔اور جب کہیں زمین کا یا گھر کا مالک اس عیاشی میں حائل ہو جاتا تو سب کی اس مقولے پر عمل کرتے کہ دوڑ اپنی اپنی۔۔۔۔
ایک گاوں کے ماحول چند بیر چوروں کو پکڑنا کونسا کام ہو سکتا ہے لیکن سبھی لوگ اس آنکھ مچولی کو محبتوں کے قرض کا لین دین ہی سمجھتے تھے۔۔۔کیونکہ بیری والے گھر نے بھی تو کسی کے امرود، اورآم توڑنے ہوتے تھے۔۔۔۔
آہستہ آہستہ لوگ کاروباری ہوگئے۔۔۔۔۔جو جنس مال مفت تصور ہوتی تھی بازار میں آکر قیمت پانے لگی۔۔۔بیر بازار میں بکنے لگے تو لوگوں نے پھلوں کی ملکیت پر حق جتانا شروع کردیا۔۔۔اس کے توڑنے پر لڑائیاں بھی بڑھنے لگیں۔۔۔۔وہ شہتوت جو لکڑی کے ٹوکروں میں سجا کر بکتے ہیں، ایسا ہی ایک درخت ہمارے چچا کی زمین میں تھا۔۔۔جس کے پھل پر سارے گاوں کی ملکیت تھی۔۔۔مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کوئی زیادہ یا کم کی لڑائی پر لڑا ہو۔۔۔ہم ہنسی خوشی اس کا پھل بانٹ لیا کرتے تھے۔۔۔۔۔کینو، میٹھے، اور آم ہمارے گاوں کے سبھی گھروں والوں کے کھیتوں میں کسی نہ کسی حد تک موجود تھے ، پھر بھی کبھی کسی اور کے پیڑ کا پھل زیادہ میٹھا لگتا تولوگ اس کو چرانے سے چوکتے نہیں تھے۔۔۔۔شاید پھل اتنے زیادہ تھے کہ معاملہ گلے شکوے سے آگے کبھی نہیں بڑھتا تھا۔۔

۔۔۔۔۔لیکن اب جب سے پھلوں کی کاشت بطور نقد آور فصل شروع ہوئی ہے لوگوں نے پھلوں کی حفاظت پر بہت توجہ دینا شروع کردی ہے۔۔۔۔سیانے لوگ تو پھول آنے پر ہی باغ ٹھیکے پر دے دیتے ہیں تاکہ گاوں کے باہر سے آئے ہوئے لوگوں سے حیا کے چکر میں کوئی پھل توڑ نہ پائے اور ایسا سوچ بھی نہ پائے۔۔۔۔۔
خیر ان پھلوں کی بات چھوڑئے جن کو نقد آور فصلوں کا درجہ حاصل ہوا۔۔۔لیکن وہ پھل جو ہمارے دیہات کے ہر فرد کی ملکیت تھے وہ پھل کہاں چلے گئے۔۔۔وہ میٹھی بیریاں۔۔۔لمبے شہتوت، جامن ، سیو بیر، وہ بھی آہستہ آہستہ چند لوگوں کی ملکیت ہوتے جارہے ہیں۔۔۔۔۔وہ خدا کی محبت کی نشانی جو لوگ مفت بانٹا کرتے تھے۔۔۔اب کہاں گم ہو گئی ہے۔۔۔۔ہم آنے والی نسلوں کو تجارت، پروفشنلزم تو شاید دے جائیں لیکن جو ہمارے دیہاتی معاشرے کی بنیادی روایت تھی اس سے دور کررہے ہیں۔۔۔۔ہمیں پھر سے چند پودے ایسے لگانے ہوں گے جن کا پھل ہم بانٹ سکیں، جن کی چوری محبت کی آنکھ مچولی ہو، جس سے بھوکے پرندے اور غریب دیہاتی کچھ انٹی آکسیڈنٹ، کچھ منرل، اور وٹامن لے کر اپنی قوت مدافعت کو بڑھا پائیں۔۔۔۔۔ان پھلوں کے غذائی اثرات پر ایک علیحدہ مضمون درکار ہے۔۔۔۔۔۔۔
میرے اندر کچھ عرصے سے یہ شدید خواہش موجزن ہے کہ ان پرانے خودرو یا جنگلی قسم کے پھلوں کو پھر سے کاشت کیا جائے۔۔۔ان پھلوں کو اپنے ماحول میں پھر سے لگا کر خوراک، محبت اور خوبصورتی کو پروان چڑھایا جایا۔۔۔۔اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہماری ایگری ہنٹ کی ٹیم پہلے مرحلے پر ایک سروے کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کرے گی کہ پاکستان میں کون کونسے پھل ہمارے دیہاتی ماحول میں قدرتی طور پر موجود تھے جو اب ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ ۔۔۔ایسے میں ڈاکٹر شہزاد بصرہ صاحب کی سوہانجنا کو پاکستان میں پھیلانے کی کاوش کو سراہا جانا ، اور اس کی تائید کرنا مشعل راہ کا درجہ رکھتا ہے کہ آپ کس طرح سے پڑھے لکھے لوگوں کو متحرک بنا کر آنے والی نسلوں کی مستقبل کی فکر کر سکتے ہیں۔۔۔۔

ایگری ہنٹ اور فارمنگ ریولیشن کی ٹیم اس سروے کے ذریعے طے کردہ پودوں کی نرسریاں تیار کرکے ان متعلقہ علاقوں میں مفت بانٹے گی۔۔۔۔ محترم عمر حبیب جو لیکچرر بارانی یونیورسٹی ہیں اور آج کل اپنی پی ایچ ڈی کے لئے نیوزی لینڈ میں مقیم ہیں ۔۔اس سارے پراجیکٹ جس کا نام فروٹ فار لائف ہے کے نگران ہوں گے۔۔۔
ہماری کوشش ابھی آغاز کے بنیادی مراحل پر ہے۔۔۔ابھی یہ خواہش زمین پر اترنے میں ایک سال کا عرصہ لے گی۔۔۔لیکن امید ہے یہ خواہش پاکستان کے دیہاتوں اور شہروں کے رنگوں میں کچھ پھولوں، اور پھلوں کا اضافہ کر پائے گی۔۔۔اگر آپ ہماری اس مہم کا حصہ بننا چاہیں تو ہماری ویب ایگری ہنٹ ڈاٹ کام www.agrihunt.com پر ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں